What is Ijtihad? Who can do Ijtihad? Has the door of Ijtihad been closed?

Question: Elaborate the concept and importance of Ijtihad and explain its principles.

سوال :اجتہاد سے کیا مراد ہے؟ اس کی ضرورت و اہمیت اور اصول و ضوابط پر بحث کریں۔

جواب: قرآن و حدیث کے دلائل کے ذریعے صحیح بات کو پالینا۔ (ابوالحسن ماوردی)

عقل و حواس اور علم کی بنیاد پر دلائل کے ذریعے کسی بات کو ثابت کرنا۔ (امام شافعیؒ )

نئے پیش آنے والے مسائل کے بارے میں شرعی حکم دریافت کرنا اجتہاد کہلاتا ہے۔ اجتہاد کا مطلب دین میں کوئی نئی چیز پیدا کرنا ہر گز نہیں ہے۔ کیونکہ شرعی احکام (قرآن و سنت) دائمی ہیں اس لئے ان میں کوئی تبدیلی کر ہی نہیں سکتا۔ اجتہاد کا مطلب یہ بھی ہر گز نہیں ہے کہ اگر کسی شرعی حکم پر عمل کرنا مشکل محسوس ہو اس کو تبدی کر لیا جائے۔ بلکہ اجتہاد صرف اسی معاملے میں کیا جائے گا جب قرآن و سنت اس پرخاموش ہوں۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما سے فرمایا: ’’جب تم قرآن و سنت میں کوئی حکم پاؤ تو اس کے مطابق فیصلہ کرو، لیکن اگر تم ان میں حکم نہ پا سکو تو اپنی رائے سے اجتہاد کرو۔‘‘    آمدي، الاحکام، 4 : 43

 پیارے آقا  ﷺ نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر  بھیجا تو روانگی کے وقت ان سے پوچھا: "اے معاذ !یمن جا کر لوگوں کے درمیان فیصلے کیسے کیا کرو گے؟ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: کتاب اللہ سے!۔آپ علیہ السلام نے پوچھا: اگروہ مسئلہ کتاب اللہ میں نہ ملا تو؟ عرض کیا:آپ ﷺ کی سنت  سے! ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگردونوں میں نہ ملے تو ؟آپ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :میں اپنی رائے سے اس مسئلہ کو حل کروں گا (انا اجتھد)۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے سینے پر اپنا ہاتھ مبارک رکھا  اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے فرمایا: اے اللہ! تیرا شکر ہے کہ تو نے اپنے نبی کے قاصد سے وہ بات کہلوائی جس کو سن کر تیرا پیغمبر خوش ہوگیا۔"     (سنن ابی داود ج2ص149باب اجتہاد الرای فی القضاء)

 مجتہد کی خصوصیات:

  • عربی زبان پر مکمل عبور ہو، تاکہ قرآن و حدیث کو صحیح سمجھ سکے۔

  • قرآن و سنت کا جامع علم ہو۔ خاص طور پر ماخذ قرآن اور ناسخ و منسوخ کا علم۔

  • إجماع أصحاب رسول ؓ کی تا ئید کرتا ہو۔

  • تابعین، تبع تابعین اند ماضی کے ائمه و مجتہدین کی رائے سے واقف  ہو۔

  • بنیادی شرعی نکات سے واقفیت رکھتا ہو۔ خاص طور پر مقاصد شریعه (مذہب کی آزادی، زندگی، عقل، وراثت اور جائیداد کا حق)۔

  • دیانتدار اور نیک ہو۔

کیا اجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا ہے؟

آئمہ مجتہدین ہمیشہ سے اجتہاد کرتے آئے ہیں اور اب موجودہ دور میں بھی اس پر بہت کام ہو رہا ہے۔  

اجتہاد کی دو اقسام ہیں:        

  1. اجتهاد کُلی: نماز کے احکام سے لے کر وراثت کے احکام تک تمام  اصول و ضوابط اور قوانین کو مذاہب اربعہ(حنفی، شافی، حنبلی اور مالکی)  نے بیان کردیا ہے اوعر اس میں مزید اجتہاد ممکن نہیں رہا۔ اس لئے امت کا اس پر اجماع ہے کہ اگر کوئی پانچواں بندہ ان بنیادی احکامات پر اجتہاد کرے گا تو فتنہ و فساد ہوگا۔ (جیسا کہ وہابی مذہب کے پیشوا  محمد بن عبد الوہاب نجدی نے کیا اور اپنے علاوہ تمام امت کو مشرک کہا۔)

  2. اجتهاد جزوی: اجتہاد جزوی اب بھی جاری ہے  مثال کے طور پر سودی بینکاری کے مقابلے میں اسلامک بینکنگ سسٹم  اور اس کے علاوہ نت نئے پیش آنے والے مسائل۔

کچھ نادان کہتے ہیں کہ اجتہاد (کُلی) اس لئے بند ہوا تھا کہ مطلب پرست حکمران اور عقلیت پسند مسلم مفکرین نے اس کا غلط استعمال شروع کر دیا تھا۔ تو اس کے جواب میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ غلط اجتہاد تو ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے اوعر دن بدن مزید ہو رہا ہے۔ جیسا کہ حضرت علی  ؓ پر شرک کا فتوی لگانے والے خوارج کا اجتہاد سراسر غلط تھا۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے  کہ درست اجتہاد نہیں ہوتا رہا۔  آج کے دور میں بینکنگ، بیمہ، آن لائن خریدوفروخت، غیرمسلم ممالک میں پیش آنے والے مسائل کو اجتہاد کے ذریعے حل کیا جا رہا ہے۔ اس لئے ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ  اجتہاد کُلی اور اجتہاد جزوی دونوں مختلف ہیں۔